Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

حال دل

ماہنامہ عبقری - اگست 2016ء

مال کہاں سے آیا ‘کیسے آیا اور کہاں گیا؟
ایک بوڑھے شخص جس کے سر کا بال بال‘ بھنوئیں اور حتیٰ کہ جسم کے تمام بال سفید ہوچکے تھے۔ بدن کی موٹی موٹی جھریاں اور بل بتارہے تھے یا تو اس کی عمر زیادہ ہے یا اس کا غم زیادہ ہے۔ جب تحقیق کی تو پتہ چلا عمر ساٹھ سال سے زیادہ نہیں‘ غم نے پچاسی سال سے زیادہ کی عمر کا بنا دیا ہے۔ موصوف سترہ سال کے تھے ‘پاکستان کے سب سے زیادہ مالدار بننے کیلئے خلیج تشریف لے گئے۔ گھر میں خوشیاں تھیں۔ ماں باپ نے آنسوؤں اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ان کو روانہ کیا۔ زندگی کے دن رات گزرتے گئے پھر کچھ کمایا اور شادی ہوئی‘ اس طرح انتالیس سال خلیج کے ملکوں میں گزار کر میرے سامنے خالی ہاتھ بیٹھے تھے اور معاشرے کی ستم ظریفی اولاد کی نافرمانی‘ بیوی کی ہٹ دھرمی‘ فضول خرچی اور اپنے کفیل کی خیانت کا رونا رو رہے تھے۔ میں ان کے غم کو دیکھتا آنسوؤں کیلئے ٹشو دیتا اور ان کے بڑھے ہوئے حد سے زیادہ بڑھاپے پر مجھے جتنا ترس آرہا تھا شاید زندگی میں کبھی آیا ہوگا۔ ساری زندگی کی پونجی سب سے پہلی جوانی ہوتی ہے ‘دوسرا سرمایہ جوان بیوی ‘تیسرا سرمایہ اولاد اور چوتھا سرمایہ زندگی کا سکون۔ ہوتا یہ ہے جوانی جذبات کیفیات کے اتار چڑھاؤ میں مال سامنے رکھ کر یونہی گزر جاتی ہے اور یہی حال بیوی کا ہوتا ہے یہ اپنی جگہ تڑپتا ہے وہ اپنی جگہ۔ اگلا سرمایہ اولاد‘ باپ کی سرپرستی اولاد کو اخلاق‘ ادب اور اچھی صحبت دیتی ہے اولاد اس سے محروم ہوکر کہاں سے کہاں نکل گئی اور آخری سرمایہ سکون ہوتا ہے بیرون ملک گزارنے والے شوگر، بلڈپریشر، دل کے امراض، اعصابی کمزوری اور طرح طرح کی بیماریاں اور خاص طور پر ٹینشن میں ضرور مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وہ سفید بالوں سے لبریز بوڑھا میرے سامنے بالکل یہی سچی کہانی لیے اپنے غم کاقصہ سنائےرو رہا تھا لیکن میں کیا کروں؟ مجھے ایک بات بار بار یاد آرہی تھی وہ یہی تھی جو مجھے بے شمار لوگوں نے بتائی کہ ہماری زندگی میں سکون ‘مال میں برکت اور چین اس لیے نہیں ہوتا کہ ہم بیویوں کو سسکتا ‘تڑپتا چھوڑ کر چلےجاتے ہیں اور ان کی آہیں ہمارا کچھ نہیں بچاتیں۔ قارئین! کچھ واقعات آپ کی نذر کرتا ہوں میری ایک درخواست ہے تھوڑا کمائیں لیکن بیوی بچوں کو اپنی زندگی کا وقت اور توجہ دیں۔ یہ میری آج کی فریاد نہیں بہت عرصہ سے یہ فریاد اور یہ غم میں آپ کے سامنےکررہا ہوں۔ آئیے! کچھ غم زدہ لوگوں کے غم میں آپ سے بیان کروں اس نیت سے کہ شاید ان ماؤں کو احساس ہو جو اپنی اولاد کو مال اور دولت کیلئے اندھی آنکھوں سے بیرون ملک دھکیل دیتی ہیں۔ اپنی بہو کا کوئی احساس یا اپنے پوتے پوتیوں کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ ایک شخص جس کو لوگ حاجی نواز کہتے تھے‘ بالکل مفلس سفید پوش تھا۔خلیج چلا گیا ‘خود گیا ‘ساری زندگی گزاری‘ جب آیا جھولیاں بھری ہوئی نوٹوں کی‘ محلے میں دو منزلہ کوٹھی صرف اسی نے بنوائی‘ چار بیٹے ‘ دامادوں کو بھی سیٹ کیا‘ مال جس طرح کمایا کیسے آیا‘ کس طرح آیا لیکن آیا اور اس کا انجام کیا ہوا اب سارے بیٹے نشئی ہیں‘ ایک بیٹے نے اپنے آپ کو جلایا‘ بھیانک زخم بنائے تاکہ بھیک مانگنے کیلئےسہولت رہے۔ دوسرا بیٹا نشے کی وجہ سے مر گیا‘ دو بیٹے نشئی ہیں‘ جائیداد کچھ نہیں سب بک چکی ہے‘ حاجی نواز طرح طرح کی بیماریوں‘ تکلیفوں‘ تنگدستی اورغربت سہتے سہتے آخر کار مرگیا۔ وہ شخص جونوٹ ہی نوٹ‘ مال ہی مال‘ ریشمی لباس‘ قیمتی گھڑیاں پہنتا تھا‘ اسی شخص کو لوگوں کی امداد کا ہروقت انتظار رہتا تھا۔ ایک صاحب نے 30 سال بیرون ملک گزارے ‘خوب نوٹ کمائے‘ ساری عمر کے بعد جب واپس آئے تو کچھ عرصہ بعد ان کی بیٹی کسی کے ساتھ بھاگ گئی‘ ایک بیٹے نے نشہ کرنا شروع کردیا اور نوجوانی کی حالت میں مر گیا‘ دو بیٹے مزدوری کرتے ہیں‘ خود کی ٹانگیں مڑگئی ہیں‘چلنے پھرنے سے معذور ہے۔ میاں بیوی چارپائی پر اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہے ہیں۔ نہ نوٹ رہے‘ نہ دولت رہی‘ نہ عزت رہی نہ وقار رہا۔٭ایک حاجی صاحب تقریباً 22 سال خلیج میں محنت مزدوری کرتے رہے‘ درزی تھے‘ آنکھیں جواب دے گئیں‘ وہیں پر دربدر پھررہے ہیں‘ واپسی کے ٹکٹ کیلئےپیسے نہیں‘اب کہتے ہیں کہ بائیس سال بیرون ملک مزدوری کی اب جیب میں ایک پیسہ نہیں‘ کس منہ سے واپس آؤں۔ گھر میں بیوی نے بھینس رکھی ہوئی ہے اسی پر گزارہ کرتی ہیں‘ بیٹا بے روزگار گھر بیٹھا ہے۔ ایک صاحب نے زمین بیچی‘ خلیج گئے‘ تین سال رہے‘ خالی ہاتھ گھرآئے۔ آج تک پھر کچھ نہیں کرپائے۔ ایک صاحب نے ساری زندگی خلیج میں گزاری‘ آخر میت گھر آئی‘ گھر میں فاقوں کا راج ہے۔ حاجی صاحب 23 سال خلیج میں رہے‘ پوری فیملی کو وہاں بلالیا۔ دو شایاں رچائیں۔ بچہ جوان ہوا‘ بیٹیوں نےوہاں اپنی پسند کی شادیاں کیں۔ قرض لے کردبئی میں کمپنی شروع کی داماد قابض ہوگیا۔ وہاں کچھ نہیں بچا‘ صدمہ سے واپس آئے۔ اب حاجی صاحب ایک ہزار روپے میں نوکری کررہے ہیں۔ ایک صاحب نے ساری زندگی باہر گزاری مگر جب واپس آئے تو کچھ نہیں بچا اب بڑھاپے میں مزدوری کررہے ہیں۔ایک صاحب بیرون ملک 32 سال لگا کر آئے مگر جب واپس آئے تو سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔اب دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ ایک قلعی گر کا بیٹاماں کی موت پر نہ پہنچ سکا، جوان بن بیاہی بہنیں‘ بیوی بیوگی کی زندگی گزارنے پر مجبور اور ایک بیٹا جو دن رات جرائم اور بدکاری میں مبتلا اور وہ صاحب خودوہاں خلیج میں اپنی من موجی زندگی میں دن رات گزار رہے ہیں۔ نہ مال بچا، نہ دولت، نہ دین نہ دنیا۔ ایک صاحب کا سارا خاندان بڑے گوشت کا کام کرتا ہے۔ سالہا سال سے خلیج میں ہیں۔ دولت ہے، مال ہے،لیکن وہ دولت اور مال عیاشیوں‘ شراب وکباب اور طرح طرح کے جرائم پر لگ رہا۔ اب تو مال بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ ایک صاحب تعمیراتی ٹھیکیداری کا کام کرتے ہیں مجھے بتانے لگے (کیونکہ میں نے ان سے خود کام کرایا) کہ اتنے سال میں خلیج میں مزدوری کرکے آیا ہوں لیکن اب کچھ نہیں بچا اور بعض اوقات گھر کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ ایک نہایت خاندانی اور بڑے نام کے فرد میرے پاس آئے 32 سال بیرون ملک گزارےان کی غیرموجودگی میں گھر کے بڑے رشتے دار سب مرگئے، کسی کے جنازے میں شامل نہ ہوسکے بس صرف فون کردیتے تھے‘ اب عالم یہ ہے کہ دولت بھی گئی اور جو لوگ حاجی صاحب حاجی صاحب کہتے تھے وہ عزت بھی گئی۔ لاہور میں ایک صاحب جن کے منہ میں ہروقت پان ہوتا ہے، ان سے میرا تعلق ایسے بنا کہ مدینہ منورہ میں سابقہ پاکستان ہاؤس جو سبع مساجد کے قریب تھا اس سے آگے پہاڑی پر ان کا گھر تھا، دن رات کیبل کے سامنے بیٹھے رہتے، مجھے رہائش کیلئے منت کرکے اپنےپاس لے گئے۔ لیکن میری طبیعت اور مزاج وہاں نہ بن سکا۔یہ بہت پرانی بات ہے‘ اس وقت وہ وہاں پچیس سال سے رہ رہے تھے۔ واپسی کی ٹکٹ کے پیسے نہیں تھے۔ ایک باباجی آخری عمر تسبیح خانہ گزارنے آئے‘ پندرہ سال قطر میں لگائے موصوف جہلم سے تشریف لاتے تھے۔ بعض اوقات جہلم سے لاہورکا کرایہ نہیں ہوتا تھا اور اسی کسمپرسی میں آخر کار فوت ہوگئے۔ قارئین! یہ چند واقعات ہیں ایسے سینکڑوں ہزاروں واقعات ہمارے معاشرے میں پھیلے ہوئے ہیں نامعلوم لوگوں کو پھر بھی عبرت اور احساس نہیں ہوتا۔ بیویوں کا حق مارتے ہیں‘ ماں کا حق‘ باپ کا حق‘ اولاد کا حق‘ رشتہ داروں کی صلہ رحمی اور اپنی جان کا حق ضائع کرتے ہیں اور اپنی جان کو سکھ اور سکون نہیں دیتے۔ پھر آخرکار یہی کچھ ہے نہ دین نہ دنیا!

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 972 reviews.